عائشہ لیاقت کے قلم سے
کھیتوں کو سیراب کرنے والی نہروں میں سارا سال پانی کے ساتھ دیگر فضلہ جات بہنے سے گار جمع ہوجاتی ہے جس کی صفائی کیلئے محکمہ انہار جنوری میں سالانہ ”بھل صفائی“ کرتا ہے،اسی طرح انسانی معمولات کے باعث بھی کئی جسمانی اور روحانی آلائشیں جمع ہو جاتی ہیں جن کے خاتمے کیلئے اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کی صورت میں سالانہ بھل صفائی کا اہتمام کر رکھا ہے۔یہ رمضان المبارک کی اہمیت و افادیت کو سمجھنے کا عام فہم پیمانہ ہے ورنہ اس ماہ مقدس کی اہمیت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ منسوب کیا،اس ماہ کے دوران جہنم کے تمام دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں،اسی ماہ مبارک میں نبی کریمﷺ پر قرآن کریم نازل ہوااور اسی بابرکت مہینے کے آخری عشرے میں لیلۃ القدر کی عظیم رات بھی آئیں جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔۔ظاہر ہے جس چیز کی اہمیت اللہ جتا رہا ہو اس کی حکمتیں ورا الوریٰ ہوں گی لہذا عام فہم پیمانے پر اس ماہ کی اہمیت کو اگر پرکھا جائے تو اس کا یہ طبی فائدہ جان لینا ہی کافی ہے کہ روزہ دار زندگی میں کبھی کینسر جیسی خطرناک بیماری کا شکار نہیں ہوتا۔ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ انسانی جسم میں پائے جانے والے مردہ سیل کینسرکا باعث بنتے ہیں۔ روزے دار کے خالی معدے کو جب کچھ نہیں ملتا تو وہ یہی مردہ سیل کھاتا رہتا ہے۔ گویا ایک ایسا مہینہ جو روحانی طور پر مسلمان کو متقی اور جسمانی طور پر کینسر سمیت بیشتر بیماریوں سے محفوظ رہنے کی ضمانت دیتا ہو اس کی ”بھل صفائی“ کے کیا کہنے۔ دراصل تقویٰ نام ہی باطن کی صفائی کا ہے جب باطن صاف ہو تو انسان تمام برائیوں سے نفرت کرنے لگتا ہے اور نیکیوں کی طرف لپکتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ تقویٰ یہی ہے کہ مسلمان اس دنیا میں گناہوں سے اپنے دامن کو بچا کر گزر جائے اور آخرت کا رختِ سفر باندھ لے۔
کورونا وبا کے باعث گزشتہ برس سے اپنے دامن کو بچا کر گزرنے کی اہمیت بھی دوچند ہوگئی ہے۔ کورونا وبا کے قہر اور خوف نے جہاں انسانی طرز زندگی اور معمولات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ وہیں رمضان المبارک اور عید کی رونق کو بھی بد رنگ اور پھیکا کر دیا ہے۔ برکتوں اور رونقوں کا مہینہ کہے جانے والے رمضان المبارک کا پورا مہینہ لوگوں نے گھروں میں رہ کر گزارا اور اب عید کی خوشیاں بھی کورونا وبا کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ حالانکہ روایتی طور پر رمضان المبارک میں روزے دار روزے کا اہتمام کرنے کے ساتھ کثیر تعداد میں مساجد کا رخ کرتے تھے۔ نماز فجر سے لے کر نماز عشاء میں مساجد کی صفیں نمازیوں سے آباد رہتی تھیں۔ سحری کے وقت تک ہوٹل کھلے رہتے اور افطار کی اشیاء کی خریداری کے لئے بازاروں میں رونق رہتی تھی۔ گھروں میں افطار کی تیاری کے لیے خصوصی انتظامات کئے جاتے تھے۔ اسی طرح عید پر بھی گھروں میں دعوتیں ہوتیں، لوگ تفریحی مقامات اور پارکوں کارخ کرتے، لیکن اس سال میٹھی عید بھی پھیکی ہی گزر رہی ہے۔
اس متعدی وبا نے بنی نوع انسان کو ایک سبق دیا ہے کہ اصل چیز انسانی جان ہے اور اس کی صحت۔ انسان کے کاروبار، تحقیق، تعلیم اور دیگر جدوجہد کا مرکز انسانی جان ہونا چاہئے۔ ہماری اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ انسان اس کرہ ارض پر اللہ تعالیٰ کا نائب ہے تو سارے کاروبار، قوانین اور تحقیقی کوششوں کا مرکز بھی انسان کو ہونا چاہیے۔ ماہرین صحت کہتے ہیں انسان جس ماحول میں رہتا ہے اس کی صحت کا بھی خیال اسی طرح رکھا جائے۔ درختوں اور نباتات کو صحت مند بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے اور انسان کے آس پاس جو حیوانات ہیں ان پر بھی نظر رکھی جائے کہ وہ تو کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہیں۔ ان تینوں کی بیک وقت دیکھ بھال ہوگی تو حضرت انسان بھی صحت مند رہیں گے۔
الحمد للہ ہم مسلمانوں کے پاس تو ایک چیز اضافی ہے اگر ہم اس کی صحت کا بھی خیال رکھیں تو ہمارے ساتھ ہمارے ماحول پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور وہ ہے ہماری روحانی صحت۔ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کے کیا کہنے سبحان اللہ، ہماری اس روحانی صحت کی بالیدگی کیلئے رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ بھی تقویم کا حصہ بنا دیا۔ جس وائرس سے دنیا کا سامنا پڑا ہے اس کا تاحال باقاعدہ علاج تو دریافت نہیں ہوسکا محض احتیاط ہی اس سے محفوظ رہنے کا واحد حل بتایا جا رہا ہے۔ احتیاط کا شریعی نام پرہیزگاری ہے۔ کورونا ایس او پیز نے ہمیں مطلوبہ خوداحتسابی میں مدد دیتے ہوئے پرہیز گاری کے نئے معانی بھی سمجھا دیئے۔یہی وجہ ہے کہ ان ایس اوپیز پر ماہ مبارک کے دوران زیادہ اور آسانی کے ساتھ عمل کیا گیا۔ جب سارا دن کھانے پینے سے پرہیز مقصود ہوتو ماسک دشواری نہیں دیتا۔ توجہ خود احتسابی کی جانب مرکوز ہو تو غیر ضروری میل جول ترجیح نہیں رہتی۔ سماجی فاصلہ ذاتی ضرورت بن جاتا ہے۔ یہی ہوا اور مشاہدے میں آیا کہ ماہ مبارک میں اس عالمی وبا کی کئی نئی پرتیں کھلیں۔ مسلمانوں کو عام دنوں سے زیادہ عبادت گزار دیکھ کر غیر مسلموں کو بھی کچھ سوچنے کی تحریک ہوئی۔ہمارے پڑوس میں جہاں ووٹ بنک بڑھانے کیلئے عوام کو ہندتوا کے بخار میں مبتلا کیا گیا، وہاں یہ بخار اب کافی حد تک اتر چکا ہے۔ اللہ کی شان ہے کہ بھارت میں مندر بند ہیں اور مساجد کھلی ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سرحد پار سے آنے والی خبروں کے مطابق مساجد کے باہر بیٹھے لوگ نماز سے فارغ ہونے والے مسلمانوں سے التجا کر رہے ہیں کہ اپنے اللہ سے اس وبا کے خاتمے کی دعا کریں۔ رمضان کی بدولت پیدا ہونے والے تقویٰ کی برکتیں ہیں کہ بھارتی مسلمان خود سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرنے والے اور اس وبا میں گھرے ہندوؤں کی مدد کرکے انسانیت کی اعلیٰ مثالیں قائم کر رہے ہیں اور تو مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام نے اپنے ریاستی کوٹے کی آکسیجن مہاراشٹر کو عطیہ کر دی،جہاں اس وبا کاشدید زور ہے اور آکسیجن نہ ہونے کے باعث مریض مر رہے ہیں۔ بھارت میں بیشتر مساجد کو ہسپتالوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔کورونا اور رمضان کا یہ نہ بھولنے والا امتزاج ہم سب مسلمانوں کیلئے قابل فخر ہے۔
کورونا وبا نے عالم اسلام کے سب سے بڑے اجتماع حج کو بھی متاثر کیا۔ گزشتہ سال کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث سعودی عرب میں حاجیوں کی محدود تعداد کے ساتھ مناسک حج ادا کئے گئے اور ایک ہزار کے قریب عازمین نے مکہ مکرمہ کے باہر وادی منیٰ کا رخ کیا۔یہ مسلسل دوسرا سال ہے جب کورونا وائرس کے بحران کے دوران مسلمانوں نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اور دیگر خصوصی عبادات انجام دیں۔ کورونا وائرس کے انفیکشن کو قابو میں رکھنے کے مقصد سے بیشتر ملکوں نے مساجد میں نمازیوں کی آمد پر معمول کی گنجائش سے بیس تا تیس فیصد کمی نافذ کر دی۔اس بندش کی وجہ سے ایسے حاجت مند افراد کافی متاثر ہوئے جنہیں رمضان کے دوران بالعموم افطار اور سحری بہ سہولت اور مفت میں دستیاب ہو جاتی تھی۔ تاہم متحدہ عرب امارات جیسے بعض ممالک نے غریب اور ضرورت مند افراد کو افطار ان کے گھروں تک پہنچانے کا وعدہ کر رکھا تھا۔بیشتر علما کرام کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کی صورت حال کے مدنظر رمضان کے مہینے میں گھروں میں رہ کر ہی عبادت کرنا زیادہ محفو ظ ہے۔کورونا وبا کے باعث ہوٹلوں اور ریستورانوں میں بھی رات کے کھانے اور سحری کے لیے دعوتیں نہیں دے پائے۔
بہرحال رمضان المبارک نے تو ہمیں الوداع کہہ دیا ہے اور عالمی وبا کے نتیجے میں عالم اسلام کی عید کی خوشیاں ماند پڑ گئی ہیں۔ عید الفطر کے موقع پر مسلمان شہری دور دراز سے سفر کر کے اپنے خاندان سے ملنے جاتے ہیں۔ گھروں میں انواع و اقسام کے کھانے بنائے جاتے ہیں اور گھروں میں دن بھر مہمانوں کی آمد ورفت جاری رہتی ہے۔ مگر اس بار لوگ گھروں میں بند ہونے کی وجہ سے عید کی خوشیوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔
تاہم یہاں یہ نکتہ ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ پابندیاں ہم پاکستانیوں کی پوشیدہ صلاحتیوں کو اجاگر کرتی ہیں۔تاحال وبا کے باعث سماج کی جو منظر کشی کی گئی وہ تصویر کا نظر آنے والا رخ ہے۔ پرہز گاری کی طرح کورونا نے خوشی کے بھی نئے معانی آشکار کئے ہیں۔ اب ہمیں یہ سمجھنے میں زیادہ دقت نہیں ہونی چاہیے کہ خوشی محض مادی اشیا میں پنہاں نہیں بلکہ حقیقی خوشی روحانی بالیدگی میں چھپی ہے۔
Load/Hide Comments