ویلے ٹائم ڈے

میثاقِ خیآل

تحریر “فیصل جاوید خیآل”

ویلنٹائن ڈے ایک قیدی کی کہانی ہے جسے جیلر لی بیٹی سے محبت ہو جاتی ہے۔ ویسٹ کو یہ کہانی اتنی پسند آئی کے انہوں نے اس کو اُن کے دن سے منسوب کر دیا۔ صدیوں سے ۱۴ فروری کو ان کی لازوال محبت کو یاد کیا جاتا ہے۔ جسے محبت کرنے والوں کا دن کہا جاتا ہے۔ اس دن لڑکے لڑکیاں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو پھول پیش کرتے ہیں۔
بلاشبہ اس دن کا منانا ہمارے معاشرے اور مذہب کے منافی ہے۔
ویسٹ اسی طرح اور بھی بہت سے دن مناتا ہے۔ جیسے “فادر ڈے” مادر ڈے” وغیرہ۔ آج کل تو کھانے پینے کے ناموں پر بھی دن منائے جا رہے ہیں۔ ویسٹ کو جو چیز پسند آتی ہے اسے کسی دن سے منسوب کر دیتا ہے۔ پھر ہر سالہا سال اس دن کو اسی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اگر آپ تحقیق کریں تو پتہ چلتا ہے ویسٹ نے ایسے ہی اپنی روایات اور تاریخ اکٹھی کی ہے۔
اور یہ بھی مسلم حقیقت ہے ہمارے پاس ٹھوس تاریخ اور روایات موجود ہیں۔ یعنی ہماری تاریخ کو اس طرح کی من گھڑت کہانیوں کی ضرورت نہیں۔ ہاں البتہ لوک ورثہ کے اعتبار سے رانجھے ہیراں اور مجنوں شجنوں بہت ہیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے تاریخ کتنی ہی وسیع و عریض ہونے کے باوجود کسے کھاتے میں نہیں آتی اور ویسٹ کی ڈب کھڑبی روایات اور تاریخ کو دنیا عقیدت کی نظر سے دیکھتی ہے۔ ہمارے اپنے گھر میں مغربی روایات سے کپ کپی طاری ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ہم اپنی تاریخ اور روایات کو اپنی نئی نسل میں منتقل کرنے میں فیل ہو چکے ہیں۔ منتقل کیا کرنا تھا جی ہم خود بھولتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں دوسروں کی تاریخ کا ہم پر مُسلت ہونا تو لازم تھا۔
اب اپنے اندر خوف پیدا کرنے سے بہتر ہو گا ہم اپنے آپ کو ریوائز کریں۔
بہرحال ہماری حالیہ تاریخ تو مضحکہ خیز بن چکی ہے۔ ویسٹ کا کوئی دن ہو جسے وہ منانے جا رہے ہوں ہم اپنے ملک میں اس کے خلاف ملک گیر احتجاج کرنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ ہمارا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ بلکے ہم تو ابھی تک نشاندہی ہی نہیں کر پائے کہ ہمارا مسئلہ آخر ہے کیا؟ ہم ہر چیز میں احتجاج تلاش کرتے ہیں۔ دوسری قوموں کے مقابلے میں احتجاج ریکارڈ کروانے میں نمبر ون ہیں۔ چاہے ریکارڈ کروانے کے بعد بھول ہی جائیں، کہ نتیجہ ہی معلوم کر لیں کوئی خاطر خواہ نتیجہ بھی ہے کہ کوئی نہیں؟ ہم احتجاج ریکارڈ کروا کر سو جاتے ہیں حالانکہ ریکارڈ کروانے والے دن سے پہلی رات کو ہمیں نیند ہی نہیں آتی کہہ کہیں کوئی اور ہی نا ریکارڈ کروا جائے۔
ہماری زندگی کی بہت ساری مشکلات اور مسائل کا تعلق ہی ہم سے نہیں۔ ہمیں چاہیے ہم اپنی قدریں، راوایات اپنی آئندہ نسلوں میں منتقل کریں۔ اپنی تاریخ سے نوجوانوں کو روشناس کروائیں تاکہ یہ دن منانا نا منانا کے رولے میں نہ پڑنا پڑے۔ ہماری نسلوں کے پاس اتنا علم ہو کہ وہ حلال حرام کا فرق کر سکیں۔
مگر نہیں ہم نے ہمیشہ مشکل راستہ اختیار کرنا ہے۔ عقل و دانش، علم کے حصول والی زندگی نہیں گزارنی۔ ہماری تربیت میں رٹے والا کام ہے۔ سامنے رٹے والا سوال آ گیا تو حل وگرنا دیکھی جائے گی کل۔
یار میں کبھی کبھی سوچتا ہوں میں کس بستی کا باشندہ ہوں۔ جہاں سرکاری گاڑی پر اعلان کیا جاتا ہے کہ کل مورخہ ۱۴ فروری کو جو لڑکی لڑکا ساتھ پائے گے ان کا نکاح کر دیا جائے گا۔ یار میں ایک برائی کی چھانگ اتار کر سوچتا ہوں مسئلہ حل ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے وہ دوبارہ اُگ آئے گی۔ برائی کو ختم کرنا ہے تو جڑیں کاٹنی ہونگی۔ اور جڑیں کاٹنے کے کیے خود کو ریوئز کرنا پڑے گا۔
یہ ڈے وہ ڈے منانے کا ہمارا حق ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی ڈے منانا چاہیے تو وہ ہے ویلے ٹائم ڈے۔ کیوں کے ہمارے سارے مسائل ہمارے ویلے ہونے کی وجہ سے ہیں۔ ہمیں پورا سال ہر دن ایک ہی دن منانا چاہیے۔ ویلے ٹائم ڈے۔ کیونکہ ہمارے پاس اِدھر اُدھر کی سوچنے کے لیے ویلا ٹائم ہی بڑا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں